iUsama.Com

وائرل ویڈیو یا اعضا کی سمگلنگ؟ فیکٹ چیک رپورٹ

طبی غفلت کو سوشل میڈیا نے جرم بنا ڈالا

2 جون 2025 کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ویڈیو بجلی کی طرح پھیلی۔ چند چارپائیاں، درجن بھر بچے اور پیٹ کے نچلے حصے پر بندھی سفید پٹیاں—پوسٹ کرنے والے نے لکھا: ’’پتھری کا بہانہ، گردے غائب!‘‘ چند ہی گھنٹوں میں لاکھوں ویوز اور غصے سے لبریز تبصرے آ گئے۔ صادق آباد کے ایک نجی اسپتال کو اعضاء کی سمگلنگ کا اڈہ بنا کر پیش کیا جا چکا تھا۔

مگر کیا واقعی رحیم یار خان کی اس تحصیل میں گردے چوری ہوئے؟ فیکٹ چیک ٹیم نے ویڈیو کا ریورس امیج سرچ کیا۔ نتیجہ چونکا دینے والا تھا: 31 مئی 2025 کی نجی ٹی وی رپورٹ «صادق آباد اسپتال میں 28 بچوں پر غلطی سے اپینڈکس کی سرجری» وہی فوٹیج دکھاتی ہے—بس زاویہ بدل جاتا ہے۔ یعنی الزام کچھ اور، کہانی کچھ اور۔

میڈیکل ریکارڈز کے مطابق اس روز 34 بچوں کو اسپتال لایا گیا، جن میں سے 28 کی فوری سرجری کر دی گئی اور چھ کو صرف درد کُش ادویات دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ کسی کا بلڈ ٹیسٹ یا الٹرا ساؤنڈ نہیں ہوا، جو عالمی طبی گائیڈ لائنز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہی غفلت بعد میں بڑے تنازع کا سبب بنی۔

مزید تفتیش سے پتا چلا کہ توحید میڈیکل کمپلیکس میں جونیئر ڈاکٹر نے اپینڈکس کے شبہے پر والدین کو فوراً آپریشن کی پرچی تھما دی۔ گھبرائے والدین نے راضی نامہ پر دستخط کیے اور درجنوں غیر ضروری اپینڈکس سرجریاں ہو گئیں۔ جب بچوں کی تکلیف کم نہ ہوئی تو لواحقین نے شور مچایا؛ میڈیا پہنچا، اسپتال سیل کر دیا گیا اور کیس پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سپرد ہو گیا۔

طبی ماہرین نے ویڈیو کا بغور جائزہ لیا۔ زخم پیٹ کے دائیں نچلے حصے میں تھے، جو اپینڈکس آپریشن کا عام مقام ہے۔ اگر گردے نکالے جاتے تو کمر یا پہلو پر ٹانکوں کے نشان دکھائی دیتے۔ خون کے ناکافی نشانات اور بظاہر اٹھتے بیٹھتے بچوں نے بھی اعضاء کی چوری کے امکان کو تقریباً ناممکن بنا دیا۔

یہ کہانی دو بڑے سبق دیتی ہے۔ پہلا: ہمارے صحت کے نظام میں موجود کوتاہیاں، جہاں غلط تشخیص بچوں کو چھری کے نیچے لے جا سکتی ہے۔ دوسرا: سوشل میڈیا کی تیز رفتاری، جہاں ’بریکنگ‘ کی گھنٹی بجتے ہی تصدیق پچھلی صف میں جا بیٹھتی ہے۔ ایک سنسنی خیز سرخی ہزاروں ری ٹویٹس کما لیتی ہے، مگر اسپتال کے ریکارڈ دیکھنے کی زحمت کم ہی کرتا ہے۔

کمیشن نے ذمہ دار ڈاکٹروں کے لائسنس معطل کر دیے ہیں اور صوبے بھر میں اپینڈکس سرجریوں کا آڈٹ جاری ہے۔ والدین کے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ تمام متاثرہ بچوں کی حالت اب مستحکم ہے، البتہ انہیں مزید فالو اَپ درکار ہوگا۔

حرفِ آخر: وائرل پوسٹ کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔ ویڈیو اعضاء کی سمگلنگ نہیں بلکہ طبی غفلت کا ثبوت ہے۔ جذبات میں شیئر کرنے سے پہلے چند منٹ تحقیق ضرور کیجیے؛ کہیں آپ غلط خبر کو وہ پَر نہ دے بیٹھیں جو سچ کا چہرہ دھندلا دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *